Reference Number 01

تمام مصائب کی مصیبت اس وقت شروع ہوئی کہ جب رسول خدا کو آخری وصیت لکھنے سے زبردستی منع کیا گیا۔

صحیح بخاری ج 1، 120

Reference Number 02

رسول خدا کی بیٹی: ام ابیها ہیں۔

صحیح بخاری، ج 3، ص 83، كتاب فضائل أصحاب النّبی (ص)، ب 42، ح 232 و ب 61، مناقب فاطمة، ح 278.

Reference Number 03

«بضعة الرّسول» «سیده نساء العالمین»، «سیدة نساء اهل الجنّة»

صحیح بخاری، ج 3، ص 83، كتاب فضائل أصحاب النّبی (ص)، ب 42، ح 232 و ب 61، مناقب فاطمة، ح 278. سیر اعلام النبلاء، ج 2، ص 123

Reference Number 04

:ابن عباس نے کہا کہ

اعن ابن عباس قال: لمّا اشتدّ بالنّبی (صلی الله علیه و سلم) وجعه، قال: ائتونی بكتاب اكتب لكم كتاباً لاتضلّوا بعده، قال عمر: انّ النّبی (صلی الله علیه و سلم) غلبه الوجع و عندنا كتاب اللَّه حسبنا، فاختلفوا و كثر الغلط، قال: قوموا عنّی و لا ینبغی عندی التنازع، فخرج ابن عباس یقول: انّ الرزیة كلّ الرزیة ماحال بین رسول اللَّه (صلی الله علیه و سلم) و بین كتابه.

جب رسول خدا کا مرض شدت اختیار کر گیا تو فرمایا کہ: کوئی شے لاؤ تا کہ تمہارے لیے ایک ایسی تحریر لکھ دوں تا کہ میرے بعد تم لوگ گمراہ نہ ہو۔ یہ سن کر عمر نے کہا: بیماری کا اثر ہے کہ پیغمبر ایسی باتیں کر رہا ہے، جب ہمارے پاس قرآن ہے، تو ہمیں کسی دوسری چیز کی ضرورت نہیں ہے، عمر کی بات سن کر ادھر بیٹھے ہوئے لوگوں کے درمیان اختلاف شروع ہو گیا۔ رسول خدا نے اس شور شرابے کو سن کر کہا تم لوگ یہاں سے اٹھ کر چلے جاؤ کیونکہ میرے پاس بیٹھ کر ایسے کام کرنا مناسب نہیں ہے۔

:ابن عباس وہاں سے اٹھ کر باہر چلے گئے اور ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ

تمام مصائب کی مصیبت اس وقت شروع ہوئی جب رسول خدا کو آخری وصیت لکھنے سے زبردستی منع کیا گیا تھا۔

صحیح بخاری، ج 1، ص 120، كتاب العلم، باب 82 كتابة العلم، حدیث 112. و ج 3، ص 318، كتاب المغازی، باب 199 مرض النّبی (ص) و وفاته، حدیث 872.

و ج 4، ص 225، كتاب المرض و الطب، باب 357 قول المریض قوموا عنّی، حدیث 574. و ص 774، كتاب الاعتصام، باب 1191 كراهیة الخلاف، حدیث 2169.

Reference Number 05

ابو بكر عبد اللَّه بن محمد بن ابی شیبہ، کہ جو بخاری کا بھی استاد ہے، اس نے اپنی کتاب المصنف میں کہا ہے کہ

حین بویع لأبی بكر بعد رسول اللَّه (ص) كان علی و الزبیر یدخلان علی فاطمة بنت رسول اللَّه (ص) فیشاورونها و یرجعون فی أمرهم، فلمّا بلغ ذلك عمر بن خطاب، خرج حتّی دخل علی فاطمة فقال: یا بنت رسول اللَّه (ص) و اللَّه ما أحد أحب إلینا من أبیك و ما أحد أحب إلینا بعد أبیك منك، و أیم اللَّه ما ذلك بمانعی أن اجتمع هؤلاء النفر عندك أن أمرتهم أن یحرق علیهم البیت. قال: فلمّا خرج عمر جاؤوها فقالت: تعلمون انّ عمر قد جائنی و قد حلف باللَّه لإن عدتم لیحرقنّ علیكم البیت، و أیم اللَّه لیمضینّ لما حلف علیه.

جب رسول خدا کے بعد ابوبکر کی بیعت کی گئی، تو علی (ع) اور زبیر اس بارے میں مشورہ کرنے کے لیے رسول خدا کی بیٹی حضرت فاطمہ کے پاس آئے۔ جب عمر ابن خطاب کو اس بات کا پتا چلا تو فاطمہ کے پاس آیا اور کہا: اے رسول خدا کی بیٹی! خدا کی قسم ہمارے نزدیک آپ کے والد سے بڑھ کر کوئی بندہ محبوب نہیں ہے اور انکے بعد ہمارے نزدیک آپ محبوب ترین ہو ! اور خدا کی قسم اس کے باوجود اگر وہ لوگ آپ کے پاس آ کر باتیں کریں گے تو، میں حکم دوں گا کہ اس گھر کو اور جو بھی اس گھر میں ہیں، آگ لگا کر جلا دیں۔

اسلم نے کہا کہ: جب عمر فاطمہ کے پاس سے واپس چلا گیا تو علی (ع) اور انکے ساتھی واپس گھر آئے تو، فاطمہ نے کہا کہ: کیا آپکو معلوم ہے کہ عمر میرے پاس آیا تھا اور اس نے خدا کی قسم کھائی ہے کہ اگر آپ ( ابوبکر کی بیعت کیے بغیر ) گھر واپس آئے تو گھر کو آپ لوگوں سمیت آگ لگا دوں گا ؟ اور خدا کی قسم وہ اپنی قسم پر ضرور عمل کرے گا۔

كتاب المصنف، ج 7، ص 432، حدیث 37045، كتاب الفتن.

ب: اسی معنی اور مفہوم کو سیوطی نے اپنی کتاب مسند فاطمہ میں ذکر کیا ہے کہ

.سیوطی، مسند فاطمه، ص 36

ابن عبد البر نے اپنی کتاب الاستیعاب میں اسی واقعے کو نقل کیا ہے۔

...اابن عبدالبر، الاستیعاب، ج 3، ص 975. و

Reference Number 06

: بلاذری نے اس بارے میں کہا ہے کہ

انّ ابابكر ارسل الی علی یرید البیعة، فلم یبایع فجاء عمر و معه فتیلة فتلقته فاطمة علی الباب، فقالت فاطمة: یابن خطاب ! أتراك محرقاً علی بأبی؟ ! قال: نعم.

ابوبکر نے عمر کو علی (ع) کے پاس بیعت لینے کے لیے بھیجا، جب انھوں نے بیعت نہ کی تو وہ فاطمہ کے دروازے پر مشعل لے کر آگ لگانے کے لیے آیا اور جب فاطمہ نے کہا کہ کیا تم میرے گھر کو آگ لگانا چاہتے ہو ؟ تو عمر نے جواب دیا: ہاں،

: جسطرح کہ بلاذری نے کہا ہے کہ

ابوبکر نے اپنی بیعت کرنے کے لیے علی کو پیغام بھیجوایا، لیکن علی نے اسکی بات کو قبول نہ کیا۔ پھر عمر مشعل پکڑے ہوئے آیا، فاطمہ نے اسکو اچانک مشعل کے ساتھ گھر کے دروازے پر دیکھا، تو فرمایا: اے خطاب کے بیٹے کیا تم میرے گھر کو آگ لگا کر ہمیں جلانا چاہتے ہو ؟ تو عمر نے جواب دیا: ہاں۔

.بلاذری، انساب الاشراف، ج 1، ص 586

Reference Number 07

: اور ابو الفداء نے بھی کہا ہے کہ

ثمّ انّ ابابكر بعث عمر بن خطاب الی علی و من معه لیخرجهم من بیت فاطمة (رضی اللَّه عنها) و قال: ان ابی علیك فقاتلهم، فاقبل عمر بشیء من نار علی ان یضرم الدار، فلقیته فاطمة (رضی اللَّه عنها) و قالت: الی این یابن الخطّاب؟ ! أجئت لتحرق دارنا؟ ! قال: نعم، او یدخلوا فیمادخل فیه الامّة.

پھر ابوبکر نے عمر ابن خطاب کو علی اور انکے ساتھیوں کے پاس بھیجا تا کہ ان کو فاطمہ کے گھر سے باہر نکالے، اور اسکو یہ بھی کہا کہ اگر انھوں نے تماری بات ماننے سے انکار کیا تو تم ان سے جھگڑا کرنا۔

پھر عمر آگ لے کر آیا تا کہ گھر کو جلا سکے۔ پھر فاطمہ نے عمر کے سامنے آ کر کہا: اے خطاب کے بیٹے کیا کرنے لگے ہو، کیا تم میرے گھر کو آگ لگانا چاہتے ہو ؟ ہاں، ورنہ وہی کام کرو جو امت نے کیا ہے، ( یعنی اگر ابوبکر کی بیعت کر لو گے، تو پھر تمہارے گھر کو آگ نہیں لگاؤں گا )

.ابو الفداء، تاریخ ابی الفداء ج 1 ص 156. دار المعرفة، بیروت.

Reference Number 08

: اہل سنت کے بزرگ عالم جوینی شافعی نے رسول خدا (ص) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ

وانّی لمّا رأیتها ذكرت ما یصنع بعدی، كانّی بها و قد دخل الذّل بیتها و انتهكت حرمتها و غصبت حقّها و منعت ارثها و كسرت جنبها و اسقطت جنینها و هی تنادی : یا محمداه...فتكون اوّل من یلحقنی من أهل بیتی فتقدم علی َ محزونة مكروبة مغمومة مغصوبة مقتولة.

میں جب بھی اپنی بیٹی فاطمہ کو دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے بعد اس پر ہونے والے تمام مصائب یاد آ جاتے ہیں، اسکے گھر میں ذلت کو داخل کیا جائے گا، اسکے گھر کی حرمت کو پامال کیا جائے گا، اسکے حق کو غصب اور اسکو ارث سے منع کیا جائے گا، اسکا پہلو شکستہ اور اسکا بچہ سقط کیا جائے گا، اس حالت میں پکارے گی: یا محمداہ..... پس وہ میرے اہل بیت میں سے سب سے پہلی ہو گی کہ جو میرے مرنے کے بعد، مجھ سے آ کر ملے گی، پس وہ میرے پاس آئے گی اس حالت میں کہ وہ بہت غمگین، دکھی اور مظلومانہ طور پر شہید کی گئی ہو گی۔

فرائد السمطین، ج 2، ص 34، 35 طبع بیروت.

Reference Number 09

: اہل سنت کی معتبر کتب سے بیان کرتے ہیں

قال رسول اللَّه (ص): ... فتكون اوّل من یلحقنی من اهل بیتی فتقدم علی محزونة مكروبة مغمومة مقتولة.

میری بیٹی فاطمہ میرے اہل بیت میں سے سب سے پہلے مجھ سے آ کر ملے گی، اور وہ اس حالت میں میرے پاس آئے گی کہ وہ بہت غمگین، دکھی اور مظلومانہ طور پر شہید کی گئی ہو گی۔

فرائد السمطین ج 2، ص 34

Reference Number 10

: جس طرح کہ ابن ابی دارم نے کہ جو بقول ذہبی

الامام الحافظ الفاضل... كان موصوفاً بالحفظ و المعرفة

امام و حافظ و فاضل اور حفظ و معرفت کے لحاظ سے معروف عالم تھا۔

: اس نے لکھا ہے کہ

إنّ عمر رفس فاطمة حتّی اسقطت بمحسن

یعنی عمر نے حضرت زہرا کے پیٹ پر زور سے ٹانگ ماری، تو محسن سقط ہو گیا۔

ابن ابی دارم نے اس مطلب کو جب اپنی کتاب میں لکھا تو بہت سے لوگوں نے اسکی مذمت کی تھی۔

كان ابن ابی دارم مستقیم الامر عامة دهره ثم فی آخر ایامه كان اكثر ما یقرء علیه المثالب حضرته و رجل یقرء علیه ان عمر رفس فاطمة حتی اسقطت بمحسن.

بے شک جب عمر نے حضرت زہرا کے پیٹ پر زور سے ٹانگ ماری، تو محسن سقط ہو گیا۔

سیر اعلام النبلاء، ج 15، ص 578.

Reference Number 11

...فلمّا توفّیت دفنها زوجها علی لیلاً و لم یؤذن بها ابابكر و صلّی علیها

جب فاطمہ نے وفات پائی تو اسکے شوہر علی نے اسکو رات کو دفن کیا اور ابوبکر کو نہیں بتایا تھا اور خود ہی اس پر نماز پڑھی تھی۔

.صحیح بخاری، ج 3، ص 253، كتاب المغازی، باب 155 غزوة خیبر، حدیث 704

Reference Number 12

...فَأَرْسَلَ إِلَى أَبِی بَکْرٍ أَنْ ائْتِنَا وَلَا یَأْتِنَا أَحَدٌ مَعَکَ کَرَاهِیَةً لِمَحْضَرِ عُمَرَ ...

حضرت علی نے کسی کو ابوبکر کے پاس بھیجا اور عمر کے ساتھ ہمنشینی کو پسند نہ کرنے کی وجہ سے اس سے کہا کہ اکیلے آنا اور کسی کو اپنے ساتھ نہ لانا۔

.صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوة الخیبر ج 5 ، ص 83 ، حدیث 3913 ، طبع : دارالفکر ـ بیروت

Reference Number 13

قال ابن عباس: یوم الخمیس و ما یوم الخمیس، ثمّ بكی حتّی بلّ دمعه الحصی ، فقلت یا بن عباس و ما یوم الخمیس ؟ قال: اشتدّ برسول اللَّه (صلی الله علیه و سلم) وجعه فقال ائتونی اكتب لكم كتاباً لاتضلّوا بعدی فتنازعوا و ما ینبغی عند نبی تنازع، و قالوا ما شأنه أهجر استفهموه، قال: دعونی

ابن عباس نے کہا کہ: جمعرات کا دن، آہ وہ کیا عجیب جمعرات کا دن تھا، یہ کہہ کر اتنا گریہ کیا کہ پاس ہی پڑے ہوئے، چھوٹے چھوٹے پتھر گیلے ہو گئے، پھر میں نے کہا: جمعرات کا دن کیا ہے ؟ اس نے کہا: اس دن رسول خدا کے مرض نے شدت اختیار کر لی تھی، اپنی حالت دیکھ کر انھوں نے فرمایا کہ: کوئی شے لاؤ کہ اس پر ایک ایسی بات لکھ دوں کہ میرے بعد تم لوگ گمراہ نہ ہو، پس یہ سن کر ادھر بیٹھے ہوئے صحابہ کے درمیان جھگڑا شروع ہو گیا، حالانکہ رسول خدا کے سامنے ایسا کرنا صحیح نہیں تھا، انھوں نے کہا کہ اللہ کے رسول کو کیا ہو گیا ہے ؟ وہ بیماری کی حالت میں ہذیان کہہ رہا ہے۔ اس پر رسول خدا نے فرمایا کہ: یہاں سے اٹھ کر چلے جاؤ۔

صحیح مسلم، ج 3، ص 455، كتاب الوصیه باب 5 الوقف ح 22

Reference Number 14

عمر کی قسم اتنی یقینی اور قطعی تھی کہ خود حضرت فاطمہ (س) نے قسم کھائی کہ وہ اپنی قسم پر ضرور عمل کرے گا۔ اور بخاری نے لکھا ہے کہ:

فوجدت فاطمة علی ابی بكر فی ذلك فهجرته فلم تكلمه حتّی توفیت و عاشت بعد النّبی (صلی الله علیه و سلم) ستّة اشهر... و لم یكن یبایع تلك الاشهر

فاطمہ ابوبکر سے ناراض ہو گئیں اور اس سے مرتے دم تک بات نہیں کی تھی اور وہ رسول خدا کی وفات کے بعد 6 ماہ تک زندہ رہیں اور اس مدت (6 ماہ) میں علی نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی۔

صحیح بخاری، ج 3، ص 253، كتاب المغازی، باب 155 غزوة خیبر، حدیث 704.

Reference Number 15

سورہ احزاب کی بعض آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ: بعض لوگ بغیر بتائے اور بغیر اجازت کے رسول خدا کے گھر آ جایا کرتے تھے۔ کھانا وغیرہ کھانے کے بعد انکے گھر ہی میں بیٹھ کر بیہودہ باتیں کرنا شروع کر دیتے تھے اور حتی کبھی ان حضرت کی کسی بیوی سے کوئی کام ہوتا تھا تو، پردہ اٹھا کر اس چیز کے بارے پوچھنا شروع کر دیتے تھے۔ ان کی ان حرکات سے رسول خدا کو اذیت ہوتی تھی، لیکن اپنی خوش اخلاقی اور حیا کی وجہ سے ان کو کچھ بھی نہیں کہتے تھے اور سب کچھ حلم و بردباری سے تحمّل کیا کرتے تھے۔ خود خداوند نے اس بارے میں چند آیات کو نازل کر کے ان کو اس کام سے منع کیا اور خاص طور پر رسول خدا کی زوجات کے بارے میں سختی سے منع کیا۔

یا أَیهَا الَّذینَ آمَنُوا لا تَدْخُلُوا بُیوتَ النَّبِی إِلاَّ أَنْ یؤْذَنَ لَكُمْ إِلی طَعامٍ غَیرَ ناظِرینَ إِناهُ وَ لكِنْ إِذا دُعیتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَ لا مُسْتَأْنِسینَ لِحَدیثٍ إِنَّ ذلِكُمْ كانَ یؤْذِی النَّبِی فَیسْتَحْیی مِنْكُمْ وَ اللَّهُ لا یسْتَحْیی مِنَ الْحَقِّ وَ إِذا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتاعاً فَسْئَلُوهُنَّ مِنْ وَراءِ حِجابٍ ذلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَ قُلُوبِهِن

اے ایمان والو نبی کے گھروں میں داخل نہ ہو مگر اس وقت کہ تمہیں کھانے کے لیے اجازت دی جائے نہ اس کی تیاری کا انتظام کرتے ہوئے لیکن جب تمہیں بلایا جائے تب داخل ہو پھر جب تم کھا چکو تو اٹھ کر چلے جاؤ اور باتوں کے لیے جم کر نہ بیٹھو، کیوں کہ اس سے نبی کو تکلیف پہنچتی ہے اور وہ تم سے شرم کرتا ہے، اور حق بات کہنے سے اللہ شرم نہیں کرتا، اور جب نبی کی بیویوں سے کوئی چیز مانگو تو پردہ کے باہر سے مانگا کرو، اس میں تمہارے اور ان کے دلوں کے لیے بہت پاکیزگی ہے

سورة الاحزاب، آیة 53

: اور پھر فرمایا کہ

وَ ما كانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَ لا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْواجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَداً إِنَّ ذلِكُمْ كانَ عِنْدَ اللَّهِ عَظیما

اور تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم رسول اللہ کو ایذا دو اور نہ یہ کہ تم آپ کی بیویوں سے آپ کے بعد کبھی بھی نکاح کرو، بے شک یہ اللہ کےنزدیک بڑا گناہ ہے۔

سورة الاحزاب، آیه 53

:اور پھر چند آیات کے بعد فرمایا ہے کہ

إِنَّ الَّذِینَ یؤْذُونَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ لَعَنهَمُ اللَّهُ فی الدُّنْیا وَ الاَخِرَةِ وَ أَعَدَّ لهَمْ عَذَابًا مُّهِینًا۔

جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر اللہ نے دنیا اور آخرت میں لعنت کی ہے اور ان کے لیے ذلت کا عذاب تیار کیا ہے۔

سورة الاحزاب، آیه 57

Reference Number 16

بخاری نے اپنی کتاب صحیح میں تین جگہ پر ذکر کیا ہے۔

:1

: كتاب التفسیر سورة الاحزاب میں مذکورہ بالا آیات کی تفسیر میں لکھا ہے کہ

عن عَائِشَةَ رضی الله عنها قالت خَرَجَتْ سَوْدَةُ بعد ما ضُرِبَ الْحِجَابُ لِحَاجَتِهَا وَكَانَتْ امْرَأَةً جَسِیمَةً لَا تَخْفَی علی من یعْرِفُهَا فَرَآهَا عُمَرُ بن الْخَطَّابِ فقال یا سَوْدَةُ أَمَا و الله ما تَخْفَینَ عَلَینَا فَانْظُرِی كَیفَ تَخْرُجِینَ قالت فَانْكَفَأَتْ رَاجِعَةً وَ رَسُولُ اللَّهِ فی بَیتِی وَ إِنَّهُ لَیتَعَشَّی و فی یدِهِ عَرْقٌ فَدَخَلَتْ فقالت یا رَسُولَ اللَّهِ إنی خَرَجْتُ لِبَعْضِ حَاجَتِی فقال لی عُمَرُ كَذَا وَ كَذَا... فقال إنه قد أُذِنَ لَكُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَاجَتِكُنَّ۔

عایشہ نے کہا کہ: آیت حجاب نازل ہونے کے بعد، ام المؤمنین سودہ رفع حاجت کے لیے گھر سے باہر گئی۔ وہ ایک موٹی عورت تھی، اسلیے وہ اپنے آپ کو دیکھنے والوں کی نگاہوں سے صحیح طریقے سے چھپا نہ سکی۔ عمر ابن خطاب نے اسکو پہچان لیا اور کہا کہ: اے سودہ ! خدا کی قسم تم اپنے آپکو ہماری نگاہوں سے مخفی نہیں کر سکتی۔ اب یہ سوچو کہ تم یہاں سے باہر کیسے جاؤ گی۔ وہ جب گھر واپس آئی تو اس نے رسول خدا کو شکایت لگائی کہ میں اپنے کام سے گھر سے باہر گئی تھی، لیکن عمر نے مجھ سے طرح طرح کی باتیں کیں ہیں۔ اس پر رسول خدا نے فرمایا کہ: تم کو اپنے کام سے گھر سے باہر جانے کی اجازت دی گئی ہے۔

صحیح بخاری، ج 3، ص 451 باب 45، حدیث 1220

:2

:كتاب النكاح باب خروج النساء لحوائجهن میں لکھا ہے کہ

عن عَائِشَةَ قالت خَرَجَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ لَیلًا فَرَآهَا عُمَرُ فَعَرَفَهَا فقال إِنَّكِ و الله یا سَوْدَةُ ما تَخْفَینَ عَلَینَا فَرَجَعَتْ إلی النبی فَذَكَرَتْ ذلك له و هو فی حُجْرَتِی یتَعَشَّی وَ إِنَّ فی یدِهِ لَعَرْقًا فَأَنْزَلَ علیه فَرُفِعَ عنه و هو یقول قد أَذِنَ الله لَكُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَوَائِجِكُنَّ۔

عایشہ نے کہا کہ: ایک رات کو سودہ بنت زمعہ گھر سے باہر گئی، جب عمر نے اسکو دیکھا تو پہچان لیا اور اس سے کہا کہ: اے سودہ ! خدا کی قسم تم اپنے آپکو ہماری نگاہوں سے مخفی نہیں کر سکتی۔ سودہ نے گھر آ کر سارا ماجرا رسول خدا کو بتایا۔ یہ سن کر رسول خدا نے فرمایا کہ: تم کو اپنے کاموں کو انجام دینے کے لیے گھر سے باہر جانے کی اجازت دی گئی ہے۔

صحیح بخاری، ج 4، ص 75، ب 116، ح 166

:3

كتاب الوضوء باب خروج النساء الی البراز میں بخاری نے نقل کیا ہے کہ

عن عَائِشَةَ أَنَّ أَزْوَاجَ النبی، كُنَّ یخْرُجْنَ بِاللَّیلِ إذا تَبَرَّزْنَ إلی الْمَنَاصِعِ و هو صَعِیدٌ أَفْیحُ فَكَانَ عُمَرُ یقول لِلنَّبِی (ص) احْجُبْ نِسَاءَكَ فلم یكُنْ رسول اللَّهِ (ص) یفْعَلُ فَخَرَجَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ زَوْجُ النبی (ص) لَیلَةً من اللَّیالِی عِشَاءً وَ كَانَتْ امْرَأَةً طَوِیلَةً فَنَادَاهَا عُمَرُ ألا قد عَرَفْنَاكِ یا سَوْدَةُ حِرْصًا علی أَنْ ینْزِلَ الْحِجَابُ۔

عایشہ نے کہا کہ: رسول خدا کی زوجات رات کی تاریکی میں مکمل پردے کے ساتھ ایک خالی جگہ پر رفع حاجت کرنے کے لیے جاتیں تھیں۔ ام المؤمنین سودہ کا قد لمبا تھا، اسی لیے عمر نے انکو پہچان لیا اور اونچی آواز سے کہا کہ اے سودہ تو خود کو ہم سے نہیں چھپا سکتی، ہم نے تم کو پہچان لیا ہے، کیونکہ سودہ آیت حجاب کے نازل ہونے کے بارے میں بہت احتیاط سے کام لیتی تھی۔

صحیح بخاری، ج 1، ص 136، ب 109، ح 143

Reference Number 17

مفسرین نے سورہٴ الا حز اب کے نز ول کے بارے میں دو دستانوں کو ذکر کیا ہے

ایک مذکورہ بالا داستان

دوسرا یہ کہ رسول خدا (ص) کے ایک صحابی نے کہا کہ: جب رسول خدا دنیا سے چلے جائیں گے تو، میں انکی فلاں بیوی سے شادی کروں گا۔ جب رسول خدا نے اس بات کو سنا تو انکو بہت برا لگا، اس پر مذکورہ بالا آیات نازل ہوہیں۔

:مفسرین کی ایک جماعت نے اس شان نزول کو ذکر کیا ہے، ان میں

طبری نے جامع البیان میں،

آلوسی نے روح المعانی میں،

اور ابن كثیر نے تفسیر القرآن العظیم، میں ذکر کیا ہے۔

ابن کثیر نے اس صحابی کو طلحہ ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ جس سے اس نے شادی کرنے کا کہا تھا، وہ عایشہ تھی۔

Reference Number 18

مسلم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ: علی، ابوبکر اور عمر کو كاذب، آثم، غادر اور خائن جانتے تھے ؟

قال عمر لعلی و عباس: « فرأیتماه (ابابكر) كاذباً آثماً غادراً خائناً... فرأیتمانی كاذباً آثماً غادراً خائناً

صحیح مسلم، ج 4، ص 28، كتاب الجهاد و السیر، باب 15 حكم الفئ، حدیث 49

Reference Number 19

:جنگ صفین میں حضرت عمار یاسر کی شہادت کے بارے میں رسول خدا کا واضح فرمان تھا کہ

تقتله الفئة الباغیة ویح عمّار یدعوهم الی الجنّة ویدعونه الی النّار

اے عمار تم کو ایک باغی گروہ شہید کرے گا

صحیح بخاری، ج 1، ص 254، كتاب الصّلاة، باب 304، التعاون فی بناء المسجد

کیونکہ تمام معتبر کتب میں رسول خدا کی یہ حدیث موجود تھی، اسی لیے قابل انکار بھی نہیں تھی اور معاویہ اور اسکے گروہ کے باطل اور باغی ہونے پر واضح ترین دلیل بھی تھی۔ اسی انھوں نے دن کو رات اور رات کو دن بنا کر دکھانے کی کوشش میں لشکر میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ عمار کو علی نے شہید کیا ہے، کیونکہ وہی عمار کو اپنے ساتھ جنگ پر لے کر آئے تھے، حالانکہ وہ بھول گئے تھے کہ اسی حدیث کے آخر میں رسول خدا نے ذکر کیا ہے کہ

یدعوهم الی الجنّة و یدعونه الی النار

عمار انکو جنت کی طرف بلاتا ہے لیکن وہ عمار کو جہنم کی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیں۔

صحیح مسلم، ج 4، ص 28، كتاب الجهاد و السیر، باب 15 حكم الفئ، حدیث 49